سورة الفرقان کی تشریح

تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرائط

اور ان لوگوں نے کہا جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے؟

یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بجائے، کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے ، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے.

یعنی رب آکر  ہمیں خود کہتا  کہ محمد میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لیے ضروری ہےـ

اسی  استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جواللہ تعالی کی منشا کے خلاف ہے اللہ تعالی تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے۔ اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ  زمین پر نزول فرمالے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلوہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالی ایسا کام کیوں  کر سکتا نے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟

یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی اس لیے کہ فرشتے انہیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے  ہیں ـ

سورہ فرقان میں بیان کردہ عباد الرحمن کی اخلاقی صفات

سورة الفرقان میں اللہ تعالی اپنے ان بندوں کے اوصاف بیان فرمارہا ہے جو اسے بہت ہی پسند اورمحبوب ہیں ۔ چنانچہ گفتگو کی جو ابتدا ہوتی ہے وہ عباد الرحمن کے الفاظ سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے ناموں میں الرحمن نہایت پیارا نام ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ رحمت سے مشتق ہی ہے۔ اورظاہربات ہے کہ بندوں کوجس چیزکی زیادہ احتیاج ہے وہ اللہ تعالی کی رحمت ہے ۔ اوراس لیے بھی کہ اگرچہ رحمت سے اللہ تعالی کا ایک نام اوربھی بنتا ہے اوروہ ہے الرحيم لیکن “الرحیم” میں اللہ تعالی کی رحمت کی شان ایک مستقل اوردائم حقیقت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے جبکہ “الرحمن ” میں اللہ تعالی کی رحمت کی جو شان سامنے آتی ہے وہ ایک سمندر کے مانند ہے ۔

سورۃ الفرقان کی روشنی میں رحمن کے بندوں کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

تواضع وانکساری

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ

اوررحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں ـ

رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم روی سے چلتے ہیں۔ “ یعنی تکبراوراکڑ کر نہیں چلتے بلکہ عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں” ۔ انکی رفتار میانہ اوراندازعاجزانہ ہوتا ہے ہرانسان کے چلنے کا انداز اسکی سیرت و کردار کی جھلک ہوتا ہے۔ متکبر کی چال اورشریف النفس ، منکسرالمزاج کی چال میں بہت فرق ہوتا ہے ہرآدمی چال دیکھ کرکسی بھی شخص کےبارے میں اندازہ لگا سکتا ہے ـ

ان کی چال سے تو اضع نمایاں ہوتی ہے۔ یہ بات جان لیجئے کہ جیسے آپ کسی انسان کے چہرے کو دیکھ کر اس کےباغی احساسات وجیہ بات کا اندازہ کر سکتے ہیں اسی طرح انسان کی چال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں غرور ہے یہ کسی فخرمیں مبتلا ہے یہ گھمنڈی ہے۔ اکڑ کرچلے گا تو اس کی چال بتائے گی کہ اس کی ذہینی کیفیت کیا ہے یا پھر اس کی چال سے یہ ظاہر ہوگا کہ اس میں بجزوتواضع فروتنی انکساری اورخاکساری ہے بندے کو یہ حقیقت پہچان لینی چاہیے کہ میں بندہ ہوں آقا نہیں ہوں آقا تو صرف ایک ہے اوروہ اللہ سے باقی بڑے سے بڑا انسان بھی بندہ ہے اورعہدیت ہی در حقیقت ہما را طرة امتیاز ۔

لہذا یہاں عباد الرحمن فرمانے میں بڑی شفقت محبت عنایت اوراتفات کے پہلو مضمرہیں ۔ مراد وہ لوگ ہیں جوواقعی اللہ کے بندے ہیں ان کی چال ڈھال سے نمایاں ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بندہ ہی سمجھتے ہیں آقا نہیں سمجھتے ۔ یہ اپنے آپ کو مخلوق سمجھتے ہیں اوراپنے مالک اپنے آقا کو پہچانتے ہیں ۔ چنانچہ ان کی چال گواہی دیتی ہے کہ فخروغرور کے بجائے ان میں معجز وفروتنی کے احساسات وجذ بات جاگزیں ہیں ـ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *