Contents
ہٹ دھرمی کے جواب میں طرز عمل
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اورجب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔
اس آیت میں دوسرا وصف بیان ہوا ہے اورجب جامل ان سے مخاطب ہوتے ہیں (اور ان سے الجھنا چاہتےہیں ) تو وہ سلام کہہ دیتے ہیں (اوراس طرح ان سے علیحدہ ہو جاتے ہیں) ۔ یہ بھی درحقیقت انسان کی شخصیت کی پیشی کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ بعض لوگ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر لوگوں سے بے کا ری بحث و تخصیص میں الجھ جاتے ہیں حالانکہ اس طرح کی بحث و مباحث کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ ایک پختہ اندازہ کرے کہ اس کا مخاطب اس وقت بات سمجھنے کے موڈ میں ہے یا بحث ونزاع پر تلا ہوا ہے۔ اوراگروہ یہ محسوس کرے کہ یہ شخص اس وقت افہام وتفہیم کے موڈ میں نہیں ہے یہ میری بات کو سنجیدگی سے نہیں سن رہا بلکہ ضد اور عنا دمیں مبتلا ہو چکا ہے اس وقت اس پر ہٹ دھرمی مسلط ہو چکی ہے یہ خواہ مخواہ مجھ سے الجھ رہا ہے بات کو سمجھنا اس کے پیش نظر سرے سے سے ہی نہیں تو بڑی خوبصورتی سے سلام کہ کراس سے علیحدہ ہو جاتے ہیں ۔
قیام اللیل کا اہتمام
وَالَّذِينَ يَعُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَا مَا
اورجوراتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے حضور میں سجدہ کرتے ہوئے
رات اللہ کی عبادت اوراس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے، بہت کم سوتے ہیں۔ صبح کو استغفار کرتے ہیں، کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ امید رحمت کی ہوتی ہے اورراتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! عذاب جہنم ہم سے دوررکھ، وہ تو دائمی اورلازمی عذاب ہے۔
یہاں رات کی نماز یعنی توجہ کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ ایک مسلمان میں جو بنیادی اوصاف درکار ہیں جن سے تعمیرو سیرت وجود میں آتا ہے جو قرآن مجید دیتا ہے اس کی ابتد اوانتہا اقامت الصلوۃ یعنی نمازپچگانہ کا اہتمام ہے جو فرض ہے۔ اس کی پابندی کرنا اس کے تمام آداب اورجملہ شرائط کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہاں بات بالکل دوسری ہے۔ یہاں تو اس سطح کی گفتگو ہورہی ہے جہاں ایک انسان اللہ تعالی کی محبوبیت کا مقام اوردرجہ حاصل کرلے۔ یہاں جس نماز کاذکر ہے وہ رات کی تہائی کی نماز ہے۔ ارشاد ہو رہا ہے: وَالَّذِينَ يَعُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَاما یعنی ان کی راتوں کا نقشہ ان لوگوں کی راتوں کی کیفیت سے بالکل مختلف ہے جوغفلت میں پڑے ہوئے ہیں جو پوری رات پاؤں پھیلا کر سوتے ہیں لیکن جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی محبت گھرکرچکی ہو ان کو ان کا جذبہ محبت رات کے وقت سونے نہیں دیتا ۔ وہ رات کوبار باراٹھتے ہیں اپنے رب کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں یا اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں ۔
عذاب جہنم سے بچاؤ کی دعا
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا
اوروہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے
اس کے بعد فر مایا کہ اپنے رب کے سامنے اس قیام اللیل کے نتیجہ میں جو دعا مانگتے ہیں دل سے نکل کر زبان پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اے رب ہمارے جنم کی سزا ہم سے دور کر دے ہمیں اس سےبچا ۔ اس میں درحقیقت اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ جہاں مخلوق کے سامنےانکی روش تواضع اورفروتنی کی ہوتی ہے وہاں وہ اپنے رہنے کے سامنے بھی نہایت عاجزی کا انداز اختیارکرتے ہیں ۔ انہیں اپنی نیکی پرکوئی فخر یا غرورنہیں ہوتا ۔ وہ کسی زحم یا گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ ان کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ نہ معلوم ہمارے اعمال اللہ تعالی کے یہاں قبول ہو ر ہے ہیں یا نہیں لہذا ان پرایک لرزہ طاری رہتا ہے ـ
اخراجات میں میانہ روی
وَالَّذِينَ إِذَا اتَّفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَفْتَرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ فَوَانًا
اوروہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے ـ
وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ میانہ روی اختیار کرنا بھی شخصیت کی پختگی اوربالغ نظری کی علامت ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اگرایک وقت ہاتھ کشادہ ہے تو انسان فضول خرچی میں پیسہ اوڑا دے اگر کسی وقت تنگی ہوگئی ہوتوانسان بالکل بجھ کررہ جائے اورنہ ایسا ہو کہ جہاں خرچ کرنا لا زمی اورضروری ہو وہاں وہ ہاتھ روک لئے یہ بخیلی ہے۔ ان تین رویوں کے بجائے ایک بین مین اورمعتدل روش اختیار کرنا ایک اعلی وارفع وصف ہے ۔ لہذا فرمایا وہ لوگ جو جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف سے کام لیتے ہیں نہ بخیلی سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان کا طرزعمل اس کے بین بین ہوتا ہے۔ یہاں چال وڈھال میں بھی اعتدال مراد ہے اورخرچ میں بھی ـ