سورة الفرقان کی تشریح

کبیرہ گناہوں سے اجتناب

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا

اوروہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اورنہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔

اوروہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے سوا کسی اورمعبود کواورنہ وقتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہر ایا ہو مگر حق کے ساتھ اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں اورجو کوئی یہ کام کرے گا وہ اس کی پاداش میں دوگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب کو قیامت کے دن اوروہ رہے گا اس میں ہمیشہ ہمیش نہایت ذلیل وخوارہوکر،ان مثبت اوصاف اورمثبت اقدار کے ذکرکرنے کے بعد جو اللہ تعالی کو پسند ہیں جن سے ایک بندہ مومن کی شخصیت میں دل آویزی اورجاذبیت پیدا ہوتی ہے اورجو ایک مومن کی شخصیت کی پختگی کیعلامات ہیں۔ اب ان آیات میں  وہ اندازبیان ہے۔ یعنی عبادالرحمن میں یہ چیزیں بالکل نہیں ہوتیں وہ ان چیزوں کےقریب بھی نہیں بھٹکتے۔

ایک آیت میں کہ ان میں سے درجہ بدرجہ تین سب سے بڑے گنا ہوں کا ذکر ہے۔ 

اكبرالكبائر

 سب سے کبیرہ گناہ اورعظیم ترین گنا ہ جس کے بارے میں سورۃ النساءمیں دو مرتبہ یہ الفاظ  وارد ہوئے ہیں بے شک اللہ اس کو تو ہرگزمعاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شرک کیا جائے اوراس سے کمتر جس کے لیے چاہے گا معاف فرمادے گا۔ گویا قرآن مجید کی رو سے ہمار ے دین میں سب سےبڑاجرم اورقطعی نا قابل معافی گناہ شرک ہے ـ

شرک کی اقسام

ایک شرک ہے شرک فی الذات ۔ یعنی اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ اور ایک شرک وہ ہے جو اللہ کی صفات کے ضمن میں ہے یعنی شرک فی الصفات اور تیسر ا شرک ہے شرک فی العبادت ۔

چنانچہ آغازمیں سب سے پہلے تو اُسی کا ذکر ہوا۔ اس لیے کہ در حقیقت شرک سے انسان کا نقطہ نظرغلط ہوجاتا ہے۔ گویا پہلی اینٹ ہی  ٹیڑھی لگ گئی تو اس کے بعد اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ ظاہر ہے کہ پھر تو کجی ہی کجی ہوگی۔ انسان کی اپنی ذاتی سیرت میں بھی کجی ہوگی۔ ایسے لوگوں پر مشتمل جو معاشرہ وجود میں آئے گا وہ بھی کج ہوگا ۔ لہذا یہاں سب سے پہلے شرک کا ذکر ہوا۔ 

قتل ناحق 

اَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ

اورجو نہ قتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے محترم  ٹھہرایا ہےمگر حق کے ساتھ۔ ـ

اس کا تعلق انسانی جان کے احترام سے ہے۔ یہ بات جان لیجیے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گنا وقتل عمد ہے اس لیے کہ اس سے تمدن کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انسان ایک متمدن حیوان ہے تمدن کی بنیا دمل جل کر رہنا ہے۔ تہذیب تمدن اورحضارت مل جل کر رہنے سے ہی وجود میں آتی ہے اوراس کی جزاور بنیاد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کی جانوں کا احترام کریں۔ اگراحترام جان ہی ختم ہو گیا تو گو یا تمدن کی اساس ہی منہدم ہوگئی۔ لہذا تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے اندر احترام جان کا پورا پورا اہتمام والتزام رہے۔ اللہ تعالی نے انسانی جان کو بہت محترم  ٹھہرایا  ہےـ

شریعت میں الا بالحق کی مصداق چار صورتیں ہیں ۔

پہلی یہ کہ قتل عمد کی صورت میں اگرمقتول کے وارث دیت یا خون بہا لینے کے لیے بھی آمادو نہ ہوں اورمعاف کرنے کے لیے بھی تیارنہ ہوں تو جان کے بدلے جان لی جائے گی۔ ارشاد الہی ہے: ان النفس بالنفس جان کے بدلے جان ہے۔ دوسری یہ کہ کوئی شخص شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے تو شریعت میں اس کے لیے رجم کی سزا ہے کہ اس کو سنگسار کیا جائے تا آنکہ وہ ہلاک ہو جائے ۔

تیسری یہ کہ اسلام میں ارتدادکی سزا قتل ہے۔

چوتھی یہ کہ وہ کافر جو حربی ہوجس کے ساتھ باقاعدہ اعلانیہ جنگ ہو رہی ہو۔

کسی اسلامی ریاست کا پرامن زمی یا معا ہد غیرمسلم اس کا مصداق نہیں بن سکتا۔ اس کی جان بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی مسلمان کی جان ہے۔ اسے وہی تحفظات حاصل ہیں جو کسی مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں ۔ البتہ جہاں کفارو مشرکین کے ساتھ جنگ ہووہاں کافر کی جان مومن کے لیے حلال ہوگی۔ ان چار صورتوں کے سوا کسی بھی حالت میں انسانی جان کا لینا قتل ناحق ہو گا اوراس آیت مبارکہ کی روسے قتل ناحق کے متعلق جان لیجیے کہ وہ ہیں اسلام کے نظام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا اقدم ہے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *