سورة الفرقان کی تشریح

جنسی بے راہ روی

وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا

اورنہ زنا کرتے ہیں اورجو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا ـ

عباد الرحمن کی ایک صفت یہ بیان کی جارہی ہے کہ وہ بدکاری نہیں کرتے۔ زنا کا ارتکاب نہیں کرتے ۔ یہ بھی بدترین گناہ کبیرہ ہے ـ

قتل ناحق کے بعد سب سے بڑا جرم زنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں یہ فعل بد رواج پا جائے اس میں سے اعتماد با ھمی محبت والفت با لکل ختم ہو کررہ جاتی ہے۔ اس لیے کہ باہمی محبت کا سر چشمہ ایک شوہراور اس کی بیوی کے مابین اعتماد کا احساس ہے۔ اگر یہ اعتماد موجود ہے تو محبت بھی ہوگی، اوریہ خاندان اس دنیا میں جنت کےباغیچوں میں سے ایک باغیچہ کی کیفیت کا مظہر بن جائے گا۔ لیکن اگرکسی معاشرہ میں پر بدچلنی کا رواج ہو جائے شوہرکو بیوی پراعتماد نہ رہے اوربیوی کا شوہر پرسے اعتما داٹھ جائے اوربد اعتمادی باہمی اعتماد کی جگہ لے لے تو اس معاشرے میں اعلی اوصاف بھی ترقی نہیں کریں گے ۔ جوانسل اس گھر میں پرورش پائے گی اس میں حسنات اور اعلی اخلاق کبھی بھی نشو ونما نہیں پاسکیں گے بلکہ ایسے ماحول میں پرورش پانے والی نسل میں بھی ایک منفی کردار پیدا ہو جائے گا

اسلام کی نظر میں یہ ایک بدترین فعل اوربڑا ہی برا راستہ ہے۔ اللہ نے اسکے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

ترجمہ: زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بہت ہی برا فعل ہے اور بڑا ہی ثمر اراستہ ہے۔

(القرآن ۱۷: ۳۲)

رسول اکرم نے ارشاد فرمایا

اللہ تعالی کے ہاں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے که انسان اپنا نطفہ ایسے رحم میں ڈالے جو اسکے لیے حلال نہیں ـ

(ابن کثیر جلد ۳ ص ۶۷)

توبہ اور رجوع الی الله 

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا

اورجو توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یقینا وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، سچّا رجوع کرنا۔

عباد الرحمن کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے ـ

بندوں سے گناہوں کا سرزد ہوجانا تعجب خیزبات نہیں ہے لیکن گناہوں پرقائم رہنا اورتوبہ سے محروم ہوجانا درحقیقت بہت بڑی بدنصیبی ہے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو اپنے گناہوں سے تائب ہو کرمغفرت کے انعام سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ان بندوں کو اپنے محبوب بندے قراردیا ہے جو توبہ کر کے رجوع الی اللہ ہوتے ہیں۔کہ اگر ان سے کوئی معمولی سا گناہ لزرش یا خطا ہو جائے تو یہ اللہ سے رجوع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی اسکے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ کیونکہ وہ تو بہ قبول کرنے والا بخشنے والا مہربان ہے اورپھر وہ نیک کام کرتے ہیں تو اللہ اپنے فضل سے انکی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔

جھوٹ سے بیزاری

 وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ 

 زورجھوٹے کو کہتے ہیں اورشہد یشهد کا معنی موجود ہونا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ جھوٹے پراپنی موجودگی بھی گوارا نہیں کرتے۔ کہیں جھوٹ کا معاملہ ہورہا ہوکہیں جھوٹ کی بنیاد پرلین دین ہو رہا ہو کہیں کوئی سازش ہورہی ہو کہیں کچھ جھوٹ گھڑےجارہے ہوں تو ایسی جگہوں پرانہیں اپنی موجودگی تک گوارا نہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ جھوٹی گواہی اس میں ازخود آجائے گی۔ جو لوگ جھوٹ  میں ادنی درجہ کی شرکت اورشمولیت گوارا نہیں کرتے وہ جھوٹی گواہی کیونکر دیں گے؟

لغویات سے کنارہ کشی

 وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا

 اورجب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں ـ

   یعنی وہ لوگ کہ جن کا کسی لغو اور بے کا رکام کی طرف قصد اورارادہ کرکے جانا تو سرے سے خارج از بحث ہے ہی اگرکسی لغو کام پر ان کا اتفاقا گزر بھی ہوجائے مثلا راہ چلتے ہوئے جب دیکھیں کہ کوئی مداری تما شاد کھا رہا ہے تب بھی یہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے دامن کو بچاتے ہوئے وہاں سے گزرجاتے ہیں ۔ لیکن یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ اس کا تو سوال ہی نہیں کہ اللہ کے یہ محبوب بندے کوئی بیکاراورلغو کام کریں۔ اگر اتفاقا بھی کسی لغو کام پران کا گزرہوجائے تو وہ باعزت طورپراپنا دامن بچاتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ اصل میں مومن کو اپنے وقت کی قدر ہوتی ہے۔ یہ محدود سا وقت اور محدود سی فرصت جواس دنیا میں حاصل ہے یہ بہت قیمتی ہے۔ اس لیے کہ اس کے نتائج اس دنیا میں نکلیں گے جولا محدود ہے۔ لہندا نتیجہ کے اعتبار سے اس زندگی کا ہر لمحہ امر ہے۔ اس کا ثمروہ اس زندگی میں ملے گا جو نہ ختم ہونے والی ہے۔ لہذا ان کےپاس کوئی فالتو وقت نہیں ہوتا کہ اسے بے کار کاموں میں صرف کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *