سورة الفرقان کی تشریح

آیات الہی پر تشکر و تدبیر

لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا لَمْ ممَّا وَعَميانا

 اوروہ کہ جب انھیں ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جائے توان پر بہرے اوراندھے ہوکر نہیں گرتے۔

اس میں کفار کی طرف ایک تعریض ہے کہ انہیں جب آیات الہی بتائی جاتی ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہو ان کی مخالفت پر اُدھار کھائے بیٹھے ہو  و ہ غور ہی نہیں کرتے سنتے ہی نہیں ، تدبرہی نہیں کرتے ۔ پہلے ہی سے طے کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اعتراضات وارد کریں ۔ یہ معاملہ مذکورہ اوصاف کے حامل عباد الرحمن کا نہیں ہوتا ہے۔ مومنوں کی حالت کافر کے برعکس مومنوں کی حالت کافروں کے برعکس ہے ـ

عباد الرحمن کے سامنے آیات الہی انکی نصیحت کے لیے پڑھی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھوں جیسا برتاؤ نہیں کرتے کہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں یا سنا دیکھا اورفراموش کر دیا والا طرزعمل نہیں اختیار کرتے۔ بلکہ وہ تو ان پرگرویدہ ہو جاتے ہیں۔ کان لگا کر سنتے اورنگاہ تیزسے دیکھتے ہیں اورمکمل طور پران سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ عباد الرحمن کے سامنے جب آیات قرآنی پڑھی جائیں تو انکے دل کانپ اٹھتے ہیں جیسا کہ

سورہ انفال میں ارشاد ہو

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُم (القرآن ۸: ۲)

مومن وہ لوگ ہیں کہ جب انکے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو انکے دل کانپ اٹھتے ہیں ـ

آیات قرآنی سن کر مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

وَإِذَا تُلِيَتُ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتُهُمْ إِيْمَانَا (القرآن ۸: ۲)

اورجب ان (مومنوں) پر اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ اسکے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں ـ

اہل وعیال کے لئے دعا

مومنین  کا یہ وصف انسانی فطرت سے وابستہ ہے۔ جو شخص خود نیک ہوگیا اورسید ھے راستے پر زندگی بسرکررہا ہوگا لازما اس کی تمنا ہوگی کہ اس کے اہل وعیال بھی اسی راستہ پر چلیں اوروہ بھی تقوی اوراحسان کی روش اختیار کریں ۔ لہذا وہ اپنے رب سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ  اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں سے اوراپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ ایک مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک اسی میں ہے کہ اس کی اولاد بھی ایمان واسلام اورتقوی و احسان کے راستے پر گامزن ہوا اس کے گھر میں بروالتقوی کا ماحول ہو۔

 متقیوں کی پیشوائی کی دعا

 وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمام

اوروہ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ہمیں متقیوں کا امام بنا دے ۔

پھر وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں نیک لوگوں کا امام اورپیشوابنا ئے نیک لوگوں کے آگے چلنے والا بنائے۔ اگرچہ اس کی خواہش رکھنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے لیکن جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آ رہے ہیں اس کے اعتبار سے ان کا مفہوم کچھ دوسرا ہے۔ در حقیقت ان الفاظ کے ذریعے پہلی بات ہی کی مزید تاکید ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص فطری طور پر اپنے اہل وعیال کا امام ہے ۔ قیامت کے روز جب لوگ اٹھیں گے تو ان کے پیچھے ان کی نسلیں چلی آرہی ہوں گی کہ اے رب ہم جن کے امام ہیں ان کومتقی  بنا دے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والے ہماری آئندہ نسلیں فساق وفجار پرمشتمل ہوں ۔

نبی کرم میں کام کا ارشاد گرامی ہے

یعنی تم میں سے ہرایک کی حیثیت ایک چروائےسی ہے اورتم میں سے ہرایک اپنے ریوڑ کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ جیسے بھیڑ بکریاں چرانے والا ایک چرواہا ہوتا ہے اورچند بھیڑ بکریاں اس کی ذ مہ داری ہوتی ہیں شام کو اگر کوئی بھیڑ یا بکری لوٹ کر نہ آئے تو اس سے پوچھا جائے گا اوران کے بارے میں مسئول ہے ۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چروائے کی ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ افراد تمہارے حوالے کردیے ہیں وہ تمہاری بیویاں ہیں تمہاری اولاد ہیں وہ تمہارے زیر کفالت ہیں وہ تمہارے زیرتربیت ہیں کہ تمہا راہ و گلہ ہے جس کے بارے میں اللہ تم سے پر چھے گا کہ تم نے ان کی صحیح رخ پر تعلیم و تربیت کا کتنا اہتمام کیا؟ انہیں اللہ کے ایک اور متقی بندے بنانے کے لیے کتنی محنت کی؟ یہ ہے مفہوم اس ارشاد نبوی کا كُلُكُمْ رَاعٍ وَكُلُكُمْ مُسْئُولٌ عَنْ رَعيته- چنانچہ ہر بندہ مومن کی یہ دعا ہوئی چاہیے کہ اے اللہ!  جو گلہ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے جس کی ذمہ داری تو نے مجھے سونپی ہے اس کو تو توفیق دے کہ وہ نیکی اور تقوی کی روش اختیار کرے اور ہم کو ایسے متقیوں کا امام بنا ـ

صبرو استقامت کا بدلہ جنت

أُولئِكَ يُجْزَوْنَ الغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جزا کے طورپرجنت میں بالا خانے ملیں گے بسبب ان کے صبر کے ـ

اس آیت میں گویا عباد الرحمن کا نہایت اہم وصف بیان کیا گیا۔ یعنی یہ درحقیقت  وہ بدلہ ہے اس صبرکا جوانہوں نے اللہ کی راہ میں کیا۔ ۔ یہ سب کام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ان میں صبرکا مادہ ہوگا۔ پھردنیا میں نیکی راست بازی اور صداقت شماری کا راستہ اختیار کرنے والوں کو آزمائشوں سے سابقہ پیش آکر رہے گا ۔ ان آزمائشوں پرصبرکرکے ہی وہ تقویٰ کی راہ پر مستقیم ہوسکیں گے ۔ جیسے سورۃ حم السجدة کی آیات میں ہم نے پڑھا تھا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یہ صبراوراستقامت درحقیقت وہ جوہرہے کہ جس کی بنیاد پرانسان دنیا میں وہ روش اختیارکرسکتا ہے جس کے نتیجے میں اس میں وہ اوصاف پیدا ہوسکتے ہیں جن کا یہاں ذکراستقامت ہوا اس آیت کا اختتام ان الفاظ پرہوتا ہے کہ وَيُلْقَوْنَ فِيهَا تَحِيَّةٌ وَسَلما ان لوگوں کا جنت میں استقبال ہوگا دعاؤں کے ساتھ اورسلام کے ساتھ۔، ظاہربات ہے کہ یہ استقبال کرنے والے جنت کے فرشتے ہوں گے۔ آگے فرمایا : خلدين فيها اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔ جنت وہ جگہ ہے کہ ایک بار داخلے کے بعد وہاں سے نکلنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔

جنت وہ بدلہ ہے جو اللہ تعالی عباد الرحمن کو اس سورت میں بیان کی گئی خصوصیات کے حامل اپنے پسندیدہ بندو کو عطا فرمائیگا

 اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ

 

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *