سورۃ الحجرات کی مختصر تشریح

 :سورة الحجرات میں بیان کردہ معاشرتی برائیاں 

“سورة الحجرات” میں بُرائیوں کا موضوع بہت اہمیت سے بیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو برائیوں سے بچنے کی راہوں کی طرف رہنمائی ملے۔ اس سورۃ میں بُرائیوں کی تنوع اور نوعیت کی بھرمار کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان کو روکنے کی تشہیر کی گئی ہے۔

:تمسخراڑانا

 سورہ حجرات میں بیان کردہ برائیوں میں سے ایک برائی کسی کا مذاق اڑانا ہے اس سے مراد صرف زبان سے ہی مذاق اڑانا نہیں ہے بلکہ کسی کی نقل اتارنا اس کی طرف اشارہ کرنا اس پر ہنسنا اس کے کسی نقص پرلوگوں کی توجہ دلانا تاکہ دوسرے بھی اس پر ہنسے اس سے کسی کی  تضحیک ہوتی ہے، اپنی بڑائی  اور دوسرے کی تحقیر و تذلیل کا  جذبہ شامل ہوتا ہے اور یہ چیز فساد کا سبب بنتی ہےـ

ایک شخص دوسرے شخص کا استہزاء یعنی اس سے مسخرا پن جب ہی کرتا ہے، جب وہ ا پنے آپ کو اس سے بہتراوردوسرے کواپنے سے کمتراورحقیرسمجھتا ہے،حالانکہ اللہ کے یہاں ایمان اورعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہےاور کون نہیں؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے آپ کو بہتراوردوسرے کو کم ترسمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے ـ

 عورتوں میں یہ بیماری اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا ذکرالگ کر کے انہیں بھی بطورخاص اس سےروک دیا گیا ہے اور حدیث رسول اللہ میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کو کبرسے تعبیر کیا گیا ہے اور کبراللہ کو  سخت نا پسند ہےـ

:طعنہ زنی

سورہ حجرات میں طعنہ زنی سے منع کیا گیا ہے،یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایک شخص دوسرے کی شان و شرافت پر حملہ آوری کرتا ہے۔ یہ عمل معاشرتی اخلاقیات میں بھی مذموم غیر موزوں اور اخلاقی روایتوں کے مخالف  ہے ـ

طعنہ زنی کا یہ عمل نہایت مضر ہوتا ہے، کیونکہ اس سے نہایت شدید نفرت، تشویش اوراکثرمعاشرتی معاملات میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ عمل فردی اور جماعتی تعلقات میں شدت پیدا کرتا ہے اورایک متحد معاشرتی ماحول متاثر ہوتا ہے۔

طعنہ زنی کرنے والا شخص لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے اوراس کا مقصد عموماً دوسروں کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی معاملات میں بے چینی اور بد اخلاقی  پیدا کرتا ہے اور اس سے آپس کے تعلقات بگڑتے ہیں اور فساد پیدا ہوتا ہےحجرات میں طعنہ زنی  اور عیب جوئی  سےمنع کیا گیا ہے یعنی ایک دوسرےپرطعنہ زنی مت کرومثلا توتوفلانا کا بیٹا ہے تیری ماں ایسی ویسی ہے تو فلاں خاندان کا ہے نہ وغیرہ ـ

اسلامی تعلیمات میں بھی طعنہ زنی کو ناپسند قرار دیا گیا ہےاورمومنوں کو ایک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال رکھنے، متشدد اختلافات سے بچنے، اور محبت وامن بھری معاشرتی معاملات قائل کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔

:برے القابات

سورہ حجرات میں ایک اورمعاشرتی برائی کا ذکر کیا گیا ہے کہ کسی کو کسی کے برے نام سے چڑانا ہے ، نامناسب الفاظ سے بلانا جو ہمارے معاشرے میں عام ہےیہ آپس میں نفرت کا باعث ہے چنانچہ اہل ایمان کو آپس میں برے القابات سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے- یعنی اپنے طور پر استہزااور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں نا پسند ہویا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کربولنا یہ تنابزباالقاب ہے ـ

 یعنی اس طرح سے نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے  سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوخ کر کے خطاب کرنا مثلا اے کافر، اے زانی ،یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہےـ

البتہ بعض وہ صفاتی نام  بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہو جائیں اوروہ اس پر دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے کالے رنگ کی وجہ سے کالیا یا کالو ہو جائ مشہور ہوجائےـ  وغیرہ-(القرطبی)

:بد گمانی

ظن کے معنی گمان کرنے کے ہیں مطلب ہے کہ اہل خیرو اہل واصلاح و تقوی کے میں بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت اور افتراء کی ضمن میں آتے ہوں اس لیے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے 

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے فرمایا

گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔  ( متفق علیہ)

صحیح بخاری(6066) میں پوری حدیث اس طرح ہے

اورنہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) ہوئی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پرحسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اورنہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔”

 اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں، کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا:

اللہ تعالٰی نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جبتک ان پرعمل نہ کریں یا زبان پرنہ لا ئیں ـ

[مسلم، الإيمان : ٥٨]

بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ہے، چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لیے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے پرا قرار دے لیا، جب کہ اس کے برا ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔