سورۃ الحجرات کی مختصر تشریح

سورہ حجرات میں بیان کردہ آداب و احکامات

احکام نمبر 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِه

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو)

سورہ حجرات میں پہلا ادب یہ ہے کہ آپ  کی موجودگی میں جب تم واپس میں گفتگو کروں تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہوـ

اس آیت میں اللہ تعالیٰ  اتباع اور تابعداری کے آداب امت مسلمہ کو سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیرواحترام عزت و عظمت کا خیال کرناچاہیئے، تمام کاموں میں اللہ اوررسولکے پیچھے رہنا چاہیئے، اس میں رسول اللہ کے لیے اس عدم و تعظیم احترام اورتکریم کا بیان ہے جو ہرمسلمان سے مطلوب ہے ـ

یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضہ ہے جو شخص اللہ کو اپنا رب اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبرمانتا ہو وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اوررسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یامعاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطورخود کرڈالے بغیراس کے کہ اسے یہ معلوم کرنے کی فکرہوکہ یہ اللہ اور اس کے رسول نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ اے ایمان لانے والو اللہ اوراس کے رسولکے آگے پیش قدمی نہ کرو یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو پیچھے چلو مقدم نہ بنو تابع بن کے رہوـ

:حدیث 

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہنے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا: ”اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے؟“ جواب دیا: اللہ کی کتاب کو، فرمایا: ”اگر نہ پاؤ؟“، جواب دیا: سنت کو، فرمایا: ”اگر نہ پاؤ؟“ جواب دیا: اجتہاد کروں گا، تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو۔‏‏‏‏“

[سنن ابوداود:3592،قال الشيخ الألباني:ضعیف] 

یعنی سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے، نظراوراجتہاد کو قرآن و حدیث سےمؤخررکھا پس قرآن و حدیث پر اپنی رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے۔

اس کا مطلب ہے دین کے معاملے میں اپنے طور پہ کوئی فیصلہ نہ کرواورنہ اپنی سمجھ اوررائے کو ترجیح دو بلکہ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرو اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد اللہ اوراس کے رسول اللہ سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں اسی طرح کوئی فتوی قران و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے اور دینے کے بعد اگراس کا نص شرعی کے خلاف ہونا واضح ہو جائے تو اس پر اصراربھی اس آیت میں  دیے گئے حکم کے منافی ہے مومن کی شان تو اللہ رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم واطاعت خم کردینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پراڑے رہنا ہے ـ

احکام نمبر 2

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو

پھردوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کریں۔

دوسرا ادب جب میں خود نبی سے کلام کرو تو نہایت وقار سکون سے کروں اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہوں بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کرخطاب کرو اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کوملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں ـ

اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ ﷺ کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے تھےـ

 یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ ﷺ  کی مجلس میں بیٹھنے والواورآپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے کو سکھایا گیا تھا اس کا منشا یہ تھا کہ حضور کے ساتھ ملاقات اوربات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھے کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہے اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگواورآپ کے ساتھ گفتگومیں نہایت نمایاں فرق ہونا چاہیےاورکسی کوآپ سے اونچی آواز میں کلام نہیں کرنا چاہیے یہ ادب اگرچہ نبی ﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو آپکے زمانے میں موجود تھے مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر ہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے یا آپ کی احادیث بیان کی جائے اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماں بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے سے بزرگ اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرزعمل اختیار کرنا چاہیے کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں اوروہ ان میں عام اورآدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا

علماء کرام اس احکام کے بارے میں فرماتےہیں کہ رسول اللہ کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ کی حیات میں آپ کے سامنے مکروہ تھا، اس لیے کہ نبی کریمجس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام وعزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ ﷺاپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں۔

احکام نمبر 3

إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپکے مکانوں کے پیچھے سے آپ کوآوازیں دیتے اور پکارتے ہیں۔ جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ” ان میں سے اکثر بےعقل ہیں “۔

اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے اکثرعقلمند نہیں ہے اور ان کی اس حرکت کو ان کے لیے مکروہ کر دیا کیونکہ وہ اسلامی اداب کے خلاف تھی آپ کی ذات آپ کے مقام کے ساتھ جس قدراحترام کا تعلق ہونا چاہیے تھا کہ اس کے خلاف تھا آ پ مسلمانوں کے قائد اور مذہبی رہنماتھےاورخدا کے نبی تھے اس لیے ان سے کہا گیا کہ انکے لیے مناسب تھاکہ صبراورانتظارکرتے تانکہ حضور اپنے معمول کے مطابق باہرنکل آتے اللہ تعالی نے ان کو توبہ استغفار کرنےاوراللہ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی مسلمانوں نےان آداب کو خوب سمجھا انہوں نے رسول اللہ کی شخصیت سے آگے بڑھ کرہراستاد ہوں ہرعالم دین کے ساتھ یہی سلوک روارکھا ایسی شخصیات کو انہوں نے گھرے کے اندر پریشان نہ کیا اور ان کے نکلنے کا انتظار کیا کبھی اساتذہ کے گھروں سے اندر گھسنے کی کوشش نہ کی ـ

احکام نمبر 4