سورۃ الحجرات کی مختصر تشریح

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا

اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو

اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو، جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طورپرمعلوم نہ ہو جائے کوئی کاروائی نہ کرو، ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اورمفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے۔

یعنی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر جس پرکوئی بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو تواس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ  یہ لینا چاہیےکہ خبرلانے والا کس قسم کا آدمی ہے اگروہ کوئی  فاسق شخص ہے یعنی جس کا ظاہر یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں تو اس کی دی ہوئی خبر پہ عمل کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سے دیکھ لیا کرو اس کی یہ بات سچی ہے  یا   نہیں،اور مسلمان حکومت   کے لیے کسی شخص  یا قوم کے خلاف   مخبر کی دی ہوئی خبر کی بنا پر کارواٰئی کرنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے ـ

احکام نمبر 5

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ

اور جان لوکہ تم میں اللہ کا رسول ہے، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمھارا کہا مان لے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ

پھراللہ فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت وادب کرنا ان کے احکام کوسرآنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے، وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں، انہیں تم سے بہت محبت ہے، وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اوراتنے واقف نہیں ہو جتنے نبی ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالی مسلمانوں کو یہ ادب سکھا رہا ہے کہ اپنی رائے کوآپ کی رائے سے مقدم نہ کرو اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کرام کبھی کوئی رائے ہی پیش نہ کریں بلکہ رائے قائم کرکے اس پر ڈٹے رہنےسے منع فرمایا گیا تھا اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ مناسب موقع پر کوئی رائے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے دیکھیں یہ بات ذہن رکھنی چاہیے کہ آپکے لیے ضروری نہیں ہے تمہاری ہررائے پرعمل کریں بلکہ آپ مصلحت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے اوراگروہ تمہاری رائے کے خلاف ہو تب بھی تمہیں اس پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ تمہاری ہر بات پر عمل کرنے سے خود تمہیں نقصان پہنچے گا ـ

احکام نمبر 6

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا

اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دوـ

 اللہ تعالی اس آیت میں یہ حکم دے رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑے اور ان کے درمیان نزع ہو جائے تو اوّل تو ان کے درمیان صلح کروا دواوراگر وہ صلح کو نہ مانے ان میں سے ایک دوسرے پہ بغاوت اختیار کریں تو اس باغی ظالم گروہ کو خوب سزا دوں، اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ قران پاک کو مانے اور حکم الہی کی طرف جھک جائے اور جو صلح کرنےپر راضی ہو جائے تو انصاف اور دل سے آپس میں صلح کرا دو اورانصاف اورعدل قائم رکھو بے شک اللہ تعالی عدل و انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ـ

 یعنی مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دے اور جس پہ زیادتی کی جا رہی ہو اس سے اس کے حال پہ چھوڑ دیں گے الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ اگر لڑنے والے فرقے میں صلح کروانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون ہے جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اورجوزیادتی کرنے والا ہواس سے لڑیں اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی نے فرمایا اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور بیٹھ جانے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہے کیونکہ اس فتنے سے مراد مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی  ہےکہ جس میں فریقین عصبیت اورحمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو ـ

یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلے میں برسر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہےـ

اس سےمراد یہ لڑائی زیادتی کرنے والے گروہ کو بغاوت کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پرمجبورکرنے کے لیے ہے اللہ کے اس حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی روح سے جو بات حق ہو اسے یہ زیادتی کرنےوالاا گروہ آمدہ ہو جائے

جو نہی کوئی  زیادتی کرنےوالاا گروہ راضی ہو جائے اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے ـ

وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّـٰهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ