سورۃ الفا تحہ کی مختصر تشریح

:سورة الفاتحة کی فضیلت  

سورة الفاتحة کی اہمیت اس میں ہے کہ یہ قرآن کی ابتدائی سورة ہے اور اس کی تلاوت کو نماز کے دوران فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازا اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے

 :حدیث  

 سفیان بن عیینہ نے علاء بن عبدالرحمن سے خبر دی ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، انہوں نے نبی ﷺ   سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن کی قراءت نہ کی تو وہ ناقص ہے ۔‘‘ تین مرتبہ فرمایا ، یعنی پوری ہی نہیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا : اس کو اپنے دل میں پڑھ لو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ  سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، اس کا ہے جب بندہ «﴿الحمد لله رب العالمين﴾» سب تعریف اللہ ہی کے لیے جو جہانوں کا رب ہے ۔‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی ۔ اور جب وہ کہتا ہے : «﴿الرحمن الرحيم﴾» سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہمیشہ مہربانی کرنے والا ۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ۔ پھر جب وہ کہتا ہے : «﴿ مالك يوم الدين﴾» جزا کے دن کا مالک ۔‘‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ اور ایک دفعہ فرمایا : میرے بندے نے ( اپنے معاملات ) میرے سپرد کر دیے ۔ پھر جب وہ کہتا ہے : «﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾» ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔‘‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : یہ ( حصہ ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، اس کا ہے اور جب وہ کہتا ہے : «﴿إهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم والا الضالين﴾» ہمیں راہ راست دکھا ، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی ہو اور نہ گمراہوں کی ۔‘‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کا ہے جو اس نے مانگا ۔

سفیان نے کہا : مجھے یہ روایت علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب نے سنائی ، میں ان کے پاس گیا ، وہ گھر میں بیمار تھے ۔ میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا ( تو انہوں مجھے یہ حدیث سنائی ۔

کتاب: نماز کے احکام ومسائل -صحیح مسلم # 878

:سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے فوائد

سورۃ الفاتحہ پڑھ کر جو بھی دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہےـ 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس نے دروازہ کھلنے کی ایک بڑے زور کی آواز سنی تو اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا اس سے ایک فرشتہ اترا ہے یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے اج کے دن کے علاوہ کبھی نہیں اترا اور اس نے سلام کیا اور کہا کہ اپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو جو کہ آپ کو عنایت ہوئے ہیں آپ کے سوا کسی نبی کو نہیں ملےـ ایک سورہ فاتحہ ہے اور دوسرا نور سورہ بقرہ کی آخری دو آیات ـ تم اس میں سے کوئی حرف نہ پڑھو گے کہ اس کی مانگی ہوئی چیز تمہیں ملے گی-( صحیح مسلم)

:بچّھو سے ڈسے ہوئے آدمی کو سورہ فاتحہ سے دم کرنا

 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر میں تھے اور عرب کےکسی  قبیلے کے پاس سے گزرے ان سے مہمان نوازی چاہی تو انہوں نے مہمانی نہ کی ـ آخر وہ باہر ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے تو بعد میں بستی والے کچھ لوگ آئے اور وہ کہنے لگے کہ تم میں سے کسی کو منترآتا  ہے؟ ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا تھاـ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص بولا کہ ہاں مجھے منتر آتا ہے پھر اس نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو وہ اچھا ہو گیا بس انہیں بکریوں کا ایک گلہ دیا گیا، تو انہوں نے نہ لیا یہ کہا کہ میں رسول سے پوچھ لوں کہ آپ کے پاس آ کر بیان کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں کیا سوائے سورہ فاتحہ کے پڑھنے کے آپ مسکرائے اور فرمایا تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ منتر ہے پھر فرمایا وہ بکریوں کا گلہ لے لے اور اپنے ساتھ ایک حصہ میرے لیے بھی لگانا( کیونکہ قرآن نبی پر نازل ہوا تھا)

(صحیح مسلم)

“وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ”

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *