قنوت نازلہ : مصیبت کے وقت کی مسنون دعا

قنوت نازلہ : مصیبت کے وقت کی مسنون دعا، طریقہ، فضائل اور موجودہ حالات  میں اس کی اہمیت

آج بیت المقدس کی سر زمین غزہ کے مظلوم  مسلمانوں کے خون  سےسرخ ہے۔  فلسطینیوں پراسرائیل کے ظلم کی انتہا ہو چکی ہےـ بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد اورنوجوان بے دردی سے شہید کیے جا رہے ہیں۔ غزہ کے مسلمان محکوم اورکمزور ہیں۔ ان پردن رات ظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں- ظالمانہ قوتوں کے ہاتھوں غزہ کے مظلوم مسلمان سخت مصائب کا شکار ہیں ـ

 آج کے اس دور میں جب کہ امت مسلمہ کے مسلمان اورحکمران  کمزور، ڈرپوک ، بزدل اورداخلی طور پر بھی انتشار کا شکار ہیں، غزہ کے مسلمانوں  کی  فلسطین جاکر مدد کرنے سے قاصر ہیں – اس طرح کے حالات میں قنوت نازلہ درحقیقت اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔  اورقنوت نازلہ کرنا رسول اللہ کی سنت بھی ہے ۔

قنوت نازلہ کی تعریف ، معنی  اور مفہوم

قنوت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور گڑگڑا کر دعا مانگنے کے ہیں، جبکہ نازلہ سے مراد وہ  ناگہانی مصیبت یا آزمائش ہے جو کسی فرد یا پوری امت پر نازل ہو سکتی ہے۔ اس طرح قنوت نازلہ کا مطلب ہوا مصائب و مشکلات کے وقت اللہ کے حضور فریاد کرنا۔ یہ ایک خاص دعائیہ عمل ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے دستِ سوال دراز کرتا ہے اورپریشانیوں سے نجات کے  لئے اللہ تعالی سےالتجا کرتا ہے۔

جب زمانہ کسی بڑی آزمائش میں گھر جائے، خواہ وہ جنگ ہو، وبا ہو، قحط ہو یا کوئی اوراجتماعی مصیبت، تو ایسے میں مسلمانوں کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ نماز کے اندر یا باہر اللہ سے رحمت کی دعا کریں ـ  نبی کریم اور صحابہ کرا م  نے مشکل کے اوقات میں قنوت نازلہ کو اختیار کیا۔ یہ نہ صرف ایک دعا ہے بلکہ درحقیقت  اللہ کی طرف رجوع کرنے، اس کی قدرت پر توکل کرنے اور اپنی عاجزی کا اظہار کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

قنوت نازلہ کی فضیلت اور شرعی حیثیت

قنوت نازلہ نبی اور صحابہ کرا م ؓ کی سنت ہے۔ جب کوئی بڑی مصیبت آتی تو رسول اللہ قنوت نازلہ پڑھتے تھے۔ یہ دعا اللہ کی رحمت کو نازل کرنے اور مصیبت کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔

سیدنا انس ابن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبینے پورا ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت نازلہ کی اور قنوت میں بنی سلیم کےکچھ قبائل پر بد دعا کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو دین پڑھانے کےلیے تقریباً ستر قراء کو بھیجا تو انہوں نے ان قراء اور علماءصحابہ کو شہید کردیا۔ نبی اور ان کے درمیان عہد تھا لیکن انہوں نے ان صحابہ کو قتل کیا تو نبی کو ان کا بہت غم لگا۔ اس وجہ سے نبی پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کرتے رہے ۔

صحيح البخاري – 1002

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ  ﷺ  نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ اس دعائے قنوت میں آپ نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے لیے بددعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

صحيح البخاري ـ 4094  

سیدنا انس بن مالک ؓ  بیان کرتے ہیں کہ آپ نے پورا ایک مہینہ قنوت نازلہ کرنے کے بعد  پھر اسے چھوڑ دیا ـ

 وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیات نازل کیں ـ

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ

آل عمران – 128

آپ کےلیے کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، چاہے تو ان کی توبہ قبول کرلے۔

 اس کے بعد آپ نے نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ کرنے کا جو تسلسل باندھا ہوا تھا،  اسے ترک کردیا۔ لیکن ضرورت کے تحت مسلمانوں کی مناصرت کے لیے دعا اور اسی طرح کفارکے لیے بد دعا کرنےکےلیے قنوت نازلہ کیا جاسکتا ہے ـ

قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ

نبی کا معمول تھا کہ جب کسی قوم کے حق میں دعا یا کسی کے خلاف بددعا کرنی ہوتی تو آپ آخری رکعت میں رکوع کے  بعد قنوت نازلہ کرتے۔

-ہاتھ اٹھا کر آپ دعا کرتے

 مسند احمد – 12402 

اورجو آپ کے پیچھے ہوتے وہ آمین کہتے ۔

   أبو داود – 1443

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ اللهم ربنا لك الحمد» کے بعد۔ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی کی ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔ اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ (یہ بددعا کرتے تھے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «ليس لك من الأمر شىء‏» کہ آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔

صحيح البخاري ـ 4560

کیا قنوتِ نازلہ کے لئے کوئی مخصوص دعا ہے؟

قنوت نازلہ ایک خاص دعا ہے جو مسلمانوں پر کسی بڑی مصیبت، جنگ، یا اجتماعی آزمائش کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ یہ دعا نمازِ فجر یا دیگر نمازوں میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ اس کے الفاظ مختلف روایات میں ملتے ہیں، جن میں سے ایک مشہوردعا یہ ہے ـ

 اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ـ

صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں بلکہ ہر اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہو اور اللہم اهدني فيمن هديت . . . إلخ  پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں۔

اولیٰ اوربہتر یہ ہے کہ یہ مذکورہ دعا بھی پڑھی جائے اور اس کے بعد وہ دعائیں پڑھی جائیں جو اس معنی کی قرآن مجید اور حدیث نبوی میں موجود ہیں۔

pdf قنوت نازلہ pdf قنوت نازلہ 

نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ کی شرعی حیثیت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک نماز فجر میں رکوع کے بعد قنوت کی، آپ بنو عصیہ کے خلاف بددعا کرتے رہے

صحيح البخاري ـ  4091

قنوت نازلہ فجر کی نماز کے علاوہ

نبی کریم   نے مصیبت و پریشانی اور رنج و غم کے پیشِ نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ـ

ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم! ضرور رسول اللہ کی نماز کو تم لوگوں کے بہت قریب کروں گا، اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظہر،عشاء اور صبح کی نماز میں قنوت کرتے اور مسلمانوں کے حق میں دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے۔

مسلم، كتاب المساجد : باب استحباب القنوت فى جميع الصلوات 676

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ   نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر میں ہر نماز کے بعد ایک ماہ تک مسلسل قنوت پڑھی، جب آخری رکعت میں «سمع الله لمن حمده» کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی سلیم کے قبائل: رعل، ذکوان اور عصیہ کے حق میں بد دعا کرتے اور جو لوگ آپ کے پیچھے ہوتے آمین کہتے۔

ابوداؤد، كتاب الوتر :   باب قنوت فى الصلاة 1443

-سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں 

” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت کرتے تھے۔ “

678 -مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة

 -سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشاء میں ایک ماہ قنوت کی۔“

1442 -ابوداود، كتاب الوتر 

سری نمازوں میں بھی قنوت جہری (بلند آواز سے) پڑھا جائے گا۔ اور مقتدی آمین کہیں گے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ رعل، ذکوان اور عصیہ جیسے ظالم گروہوں کے نام لے کر بددعا فرمائی تھی، اس لیے آج بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والی کفار کی حکومتوں اور تنظیموں کے خلاف خاص طور پر بددعا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی خصوصی دعائیں فرمائی تھیں، جیسے ولید بن ولید رضی اللہ عنہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت میں ان کی رہائی کی دعا کیا کرتے تھے۔

اس سنت کے مطابق آج ہم بھی ـ

مظلوم مسلمانوں خصوصاً فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر خطوں کے لیے دعا کریں

مسلم حکمرانوں، علماء اور مجاہدین کے لیے خصوصی دعائیں کریں

ظالم طاقتوں کے خلاف اللہ سے مدد طلب کریں

یہ قنوت نازلہ کا اصل مقصد ہے جو ہمیں سنت نبوی سے ملتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف ہم اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اللہ کی نصرت کے مستحق بھی بنتے ہیں۔

ہماری ذمہ داریاں

صرف مظاہرے کرنا کافی نہیں۔ ہمیں اپنی نمازوں کو ہتھیار بنانا ہوگا۔ قنوت نازلہ درحقیقت اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آئیے آج ہم سب مل کر اپنی نمازوں میں یہ سنت زندہ کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں۔

قنوت نازلہ ایک روحانی ہتھیار ہے، لیکن اس کے ساتھ عملی کوششیں (مدد، آگاہی، اتحاد،جہاد) بھی ضروری ہیں۔

یاد رکھیں، جب تک ہم اپنے عمل سے اللہ کی مدد کے مستحق نہیں بنیں گے، اللہ کی نصرت ہمارا مقدر نہیں بن سکتی۔ قنوت نازلہ پڑھنا ہمارا ایمانی فریضہ ہے۔

حرف آخر

اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف دینی رہنمائی اور اصلاحِ احوال ہے۔ یہاں پیش کیے گئے تمام نکات قرآن و سنت، معتبر احادیث،  پر مبنی ہیں۔ تاہم، قارئین سے گزارش ہے کہ قنوت نازلہ سے متعلق کسی بھی عملی مسئلے میں اپنے مقامی مفتی یا عالم دین سے ضرور مشورہ لیں۔ ہرعمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنت کے مطابق قنوت پڑھنے کی توفیق دے اورامتِ مسلمہ کو تمام مصائب سے نجات عطا فرمائے۔ (آمین)

مزید پڑھیے      قرآن-کا-ترجمہ