سورة الفرقان کی تشریح

 

سورۃ افرقان کا تعارف

:فرقان کے معنی

فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اورعدل و ظلم کے درمیان فرق کرنے والا، اس قران نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے اس لیے اسے فرقان سے تعبیر کیا گیا ہے ـ

:تعارف 

سورة الفرقان مکمل مکہ میں اتری اسلیے سورہ فرقان مکیّ ہے۔ قرآن مجید کے اٹھارویں پارے کے آخر سے شروع ہو کر انیسویں پارے میں ختم ہوتی ہے۔ اس میں 4 رکوع ستتر آیتیں ہیں۔ سورہ کا نام اسکی پہلی آیت کے لفظ “الفرقان” پر رکھا گیا ہے۔

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

بہت برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فیصلہ کرنے والی (کتاب) اتاری، تاکہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کی نبوت عالم غیر ہے اورآپ تمام انسانوں اورجنوں کے لیے ہادی اوررہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں ،جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا؎ قُلْ يَاتهَا النَّاسُ إِن رَسُولُ اللهِ الكُمْ جَمِيعًا (اعراف 106)

 “حدیث میں بھی فرمایا بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْود “مجھے احمرواسود سب کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے 

صحيح مسلم كتاب المساجد

 ” پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اورمیں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا پھرارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لیے ہے کہ آپ تمام جہان کے لیے آگاہ کرنے والے بن جائیں، ایسی کتاب جو سراسرحکمت وہدایت والی ہے۔ جومفصل، مبین اورمحکم ہے۔ جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا۔ جو حکیم و حمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ہوں”۔

آپ اس کی تبلیغ دنیا بھرمیں کر دیں، ہرسرخ و سفید کو، ہردورونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرا دیں، جو بھی آسمان کے نیچے اورزمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے۔

رسالت و نبوت کے بعد توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔

ـ وہ ذات کہ اسی کے لیے آسمانوں اورزمین کی بادشاہی ہے (یعنی کائنات میں متصرف صرف وہی ہے، کوئی اورنہیں

ـ اوراس نے نہ کوئی اولاد بنائی (اوراس میں نصاری ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے

ـ اورنہ کبھی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک رہا ہے (اس میں صنم پرست مشرکین اور ثنویت  دو خداؤں شر اور خیرظلمت اور نور کے خالق کے قائلین کا رد ہے

ـ اوراس نے ہرچیزکو پیدا کیا، پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پورا اندازہ۔ (ہر چیز کاخالق صرف وہی ہے اوراپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہروہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہرچیز کی موت اور روزی ااس نے پہلے سے مقرر کردی ہےـ

خود فریب مشرکین کی حماقتیں اوران کے جوابات

 اوران لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ نہیں ہے مگرایک جھوٹ، جواس نے گھڑ لیا اورکچھ دوسرے لوگوں نے اس پراس کی مدد کی

مشرکین کہتے تھےکہ محمد نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض موالی (مثلا ابواہ فکہیہ یسارو بشریت ، عداس اورجبروغیرہم سے مدد لی ہے) یہاں قرآن نے اس الزام کو ظلم اورجھوٹ سے تعبیر کیا ہے ، بھلا ایک امی شخص دوسروں کی مدد سے ایسی کتاب پیش کرسکتا ہے جو فصاحت وبلاغت اوراعجازکلام میں بے مثال ہو، حقائق ومعارف بیانی میں بھی معجزنگارہوانسانی زندگی کے احکام و قوانین کی تفصیلات میں بھی لاجواب ہواوراخبارماضیہ اور مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی نشاندہی اوروضاحت میں بھی اس کی صداقت مسلم ہو۔

 یہ ان کے جھوٹ اورافترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اورخلاف واقعہ ہے؟ یقینا نہیں ہے۔ بلکہ ہربات بالکل صحیح اورسچیّ ہے، اس لیے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان وزمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔

 اور انھوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے

قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اوریہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیوں کہ ان کے خیال میں بشریت ، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا اوربازاروں میں آتا جاتا ہے۔ اورہمارے ہی جیسا بشرہے۔ حالانکہ رسول کوتوبشرنہیں ہونا چاہیے۔ مذکورہ اعتراض سے نیچے اتر کر کہا جا رہا ہے کہ چلو کچھ اورنہیں توایک فرشتہ ہی اس کے ساتھ ہوتا جواس کا معاون اورمصدق ہو۔

تا کہ طلب رزق سے وہ بے نیاز ہوتا۔

تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہو جاتی۔

یعنی جس کی عقل و قسم سحر زدہ اور محمل ہے۔

کافراس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اورتجارت بیوپار سے کیا مطلب؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبربھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے، کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا۔ بیوپار، تجارت اورکسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے۔ یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف، نیک خصائل، عمدہ اقوال، مختار افعال، ظاہر دلیلیں، اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہرعقل سلیم والا، ہردانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اوران کی سچائی کو مان لے۔

 اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا، یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا

یعنی یہ آپ کے لیے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لیے ان کا کر دینا کوئی مشکل نہیں ہے وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کر سکتا ہے جو ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب و عناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لیے ـ

اور ظالموں نے کہا تم تو بس ایسے آدمی کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کیا ہوا ہے

یعنی اے پیغمبر! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی محسور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر، حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل و فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے بیں  یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہو جاتے ہیں، انہیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *